Orhan

Add To collaction

محبت ہو گئی ہے

محبت ہو گئی ہے 
از قلم اسریٰ رحمٰن
قسط نمبر8

"تو کیسا لگا ممبئی تمہیں..؟" بڑی بھابھی اس کے کپڑے الماری میں رکھتی ہوئی اس سے بولیں جو کہ بیڈ پر آڑی ترچھی لیٹی ڈائجیسٹ پڑھنے میں بزی تھی... اسے دہلی آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا لیکن اس نے اب تک اپنے کپڑے وغیرہ کچھ بھی سیٹ نہیں کیا تھا سب ویسے ہی سوٹ کیس میں پیک رکھے تھے.. تھک ہار کر بڑی بھابھی سرانجام دینے کی ٹھانی.. کام کے دوران اس سے اس کی ممبئی ٹرپ کے بارے میں بھی پوچھ رہی تھیں...
" بہت اچھا.. بہت ہی خوبصورت.. پتا ہے وہ سب وہاں کی ہر خوبصورت جگہوں پر لے گئے تھے... وہاں کا مال.... اللہ اتنا بڑا اتنا خوبصورت ہے کہ کیا بتاؤں.. " وہ بتاتے ہوئے جیسے وہاں کے مال میں کھو گئی تھی...
" تم وہی بتاؤ جو تم نے دیکھا جو تمہیں اچھا لگا.." بڑی بھابھی مسکرا کر اس کے پاس بیٹھتی ہوئی بولیں...
" ہاں وہی تو بتا رہی میں.. وہاں اتنی خوبصورت چیزیں ملتی ہیں وہاں کہ کیا ہی یہاں ملتی ہوں گی.."
" ملتی ہیں.. اگر تم ڈھونڈو تو مل ہی جائیں گی.."
" اچھا پر مجھے تو آج تک ایسی کوئی چیز نہیں ملی جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ اور دل رکھنے سا جاۓ.."
" ایسی سیچویشن چیزیں دیکھ کر نہیں کوئی ہینڈسم ہنک دیکھ کر ہوتی ہیں.." نائلہ بھابھی ارم بھابھی کے ساتھ اندر داخل ہوتے ہوئے اس کی بات پر شرارتی انداز میں لقمہ دیا تو وہ انہیں منہ بناکر گھورنے لگی جبکہ وہ تینوں اس کا چہرہ دیکھ کر ہنس دیں...
" ایسے منہ بنانے سے میری بات غلط تو ثابت نہیں ہو سکتی.. کیوں بھابھی..؟" نائلہ بھابھی نے بڑی بھابھی کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی...
" بالکل غلط کہا آپ نے... بھابھی آپ ان کا ساتھ نہیں دیں گی.." وہ بڑی بھابھی کے قریب ہوتے ہوئے بولی...
" اچھا چھوڑو تم بتاؤ... وہاں کے مال کا قصہ سنا رہی تھی... تم خریدا بھی وہاں سے یا صرف چکر کاٹ کر آگئی.." ارم بھابھی نے اسے اس کے موضوع کی یاد دلاتے ہوئے کہا تو وہ دوبارہ شروع ہو گئی تھی...
" میں تو کچھ لینا نہیں چاہتی تھی لیکن ان تینوں نے زبردستی شاپنگ کرا دی تھی.."
" اوووووووو... " اس کی بات پر دونوں چھوٹی بھابھیوں نے سیٹی کے انداز میں منہ بناکر ایک دوسرے کو دیکھا...
" رکئے میں دکھاتی ہوں آپ کو.." یہ کہتی ہوئی وہ پھرتی سے بیڈ پر سے اتری اور سوٹ کیس میں کچھ تلاش کرنے لگی... کافی تلاش کرنے کے بعد ایک لانگ وائٹ شرٹ اس نے ان کے سامنے لہرائی...
" یہ دیکھیں... کیسا ہے.. خوبصورت ہے نا.."
" بہت.. کس نے دیا تھا.." 
" اسد بھائی نے..." وہ جلدی سے بولی تو ان تینوں نے معنی خیز انداز میں پہلے  ایک دوسرے کو پھر اسے دیکھا..
" ویسے عفیرہ تم نے بتایا نہیں چاچو کے بیٹے کیسے ہیں.." بڑی بھابھی نے اس سے پوچھا..
" سب بہت اچھے ہیں.. شروع میں تھوڑا عجیب تھے لیکن بعد میں احساس ہوا کہ لوگ خوامخواہ غلط باتیں کرتے ہیں ان کے بارے میں.."
" کیسی باتیں کرتے ہیں لوگ ان کے بارے میں.." ارم بھابھی نے لاعلمی ظاہر کی..
" یہی کہ وہ سب بہت آزاد خیال کے ہیں... کوز کیریکٹر ہیں... بڑوں کا لحاظ نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ.." 
" تو پھر کیسے ہیں.. تمہیں کیسے لگے.."
" اچھے ہیں بلکہ بہت اچھے ہیں... سب سے بولنے والے.. سب کی عزت کرنے والے.. خیال رکھنے والے... مجھے تو کوئی ایسی خامی نظر نہیں آئی ان میں کہ انہیں کیریکٹر لیس کہہ سکوں.." اس نے دل سے ان کی تعریف کی..
" تو ان پانچوں میں سے کون تمہیں سب سے اچھا لگا.. مطلب سب میں ایک جیسی اچھائی تو ہوگی نہیں.." نائلہ بھابھی اسے کریدنے کی کوشش کر رہی تھیں..
" یہ کیسا سوال ہے.." عجیب نظروں سے انہیں دیکھا..
" جیسا بھی ہے بس تم جواب دو.." بڑی بھابھی نے اسے بہلایا..
" مشکل سوال ہے... احد اور فہد ایک جیسی نیچر کے مالک ہیں... کئیرنگ ہیں... ہنس مکھ ہیں... صائم اور دائم جڑواں ہیں تو دونوں کے مزاج بالکل ایک جیسے ہیں..."
" بڑے والے کو بھول گئی ہیں آپ میڈم... اپنے اسد بھائی کو.." نائلہ بھابھی نے ' اسد بھائی' پر زور دیتے ہوئے کہا..
" ان کے موڈ کا کوئی ٹھیک نہیں ہے.. پل میں تولہ پل میں ماشہ... کافی خطرناک انسان ہیں وہ... میں تو انہیں دیکھتے ہی بھاگنے کی کوشش کرنے لگتی تھی.." 
" کیوں کچا چبا جاتا تھا کیا.." 
" آپ مجھ سے اتنے سوال کیوں کر رہی ہیں" اس نے مشکوک نظروں سے ان تینوں کو دیکھا..
" کیوں ہم نہیں پوچھ سکتے.. تم بتانا نہیں چاہتی تو صاف صاف منع کردو.. ہم دوبارہ نہیں پوچھیں گے.." 
"اب ایسا میں نے کب کہا.." ارم بھابھی کے ڈرامائی انداز میں کہنے پر وہ سنبھل کر بولی..
"اچھا عفیرہ ایک بات پوچھوں .." بڑی بھابھی نے تمہید باندھتے ہوۓ بات شروع کی تو وہ ان کی طرف متوجہ ہو گئی..
"وہ دراصل تمہارے لئے رشتہ آیا ہے نازیہ چچی کے بھتیجے کا.." بڑی بھابھی نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا جو پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں ہی دیکھ رہی تھی..
" تم ملی ہو ان کے بھتیجے سے.." نائلہ بھابھی کے پوچھنے پر اس نے خود پر کنٹرول کرکے سر نفی میں ہلا دیا..
" اچھا.. ابو نے چاچو سے بات کی ہے اس بارے میں انہوں نے کہا کہ اسد سے پوچھ کر بتائیں گے.. وہ بہتر جانتا ہے.." 
" وہ کیسے بہتر جان سکتے ہیں.." اس نے دھیمی آواز میں ان سے پوچھا..
" کیونکہ وہ شاید اسد کا دوست ہے.."
" امی ابو کا کیا کہنا ہے.."
" وہ ابھی اس بارے میں سوچ رہے ہیں.."
" اور بھائی لوگ.." اس کا انداز کھویا کھویا سا تھا...
" تم فکر مت کرو گڑیا جو بھی ہوگا تمہاری مرضی سے ہوگا.. تم آرام کرو ہم چلتے ہیں.." بڑی بھابھی اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اٹھ گئیں تو باقی دونوں بھی ان کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئیں اسے ایک الجھن میں اکیلا چھوڑ کر...
 وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا ہوگا آگے.. نہ جانے کیوں اس کی حالت ایسی ہو رہی تھی... اپنی سوچوں سے جان چھڑانے کے لیے وہ تکیہ منہ پر رکھے سونے کی کوشش کرنے لگی...
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
" مجھے چھوڑ کر چاۓ کا مزا لیا جا رہا ہے.." وہ صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھتا ہوا بولا... شام کا وقت تھا اور موسم بھی کافی خوشگوار تھا.. اس لئے سب ایک ساتھ بیٹھے چاۓ اور موسم دونوں کا مزا لے رہے تھے سواۓ اس کے جو آفس سے آکر جو سویا تو اب اس کی نیند کھلی تھی...
" آپ تو چاۓ پیتے نہیں اس لیے آپ کو چھوڑ دیا.." دائم چاۓ کے سپ لیتا مزے سے بولا تو باقی سب مسکرا دیۓ..
" ویری فنی.." اسے گھور کر وہ رضیہ کو کافی کا کہنے لگا...
"شکریہ شکریہ.."
" مجھے تم لوگوں سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اچھا ہوا تم لوگ آج اکٹھے مل گئے.." جمشید صاحب نے ایک نظر ان سب پر ڈالی پھر نازیہ بیگم کی طرف دیکھا..
" ہم عفیرہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں..." نازیہ بیگم سیدھی ہوتی ہوئی بولیں تو وہ جو کافی کا مگ ہونٹوں سے لگانے جا رہا تھا رک کر انہیں دیکھنے لگا جبکہ احد نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا..
" عفیرہ کے بارے میں کیا بات کرنی ہے.." اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے جمشید صاحب کو دیکھا جو کسی سوچ میں گم تھے..
" میں نے تم لوگوں کو بتایا نہیں کہ کل شائستہ بھابھی آئی تھیں.." نازیہ بیگم نے گلا کھنکھار کے بات کا آغاز کیا..وہ پانچوں بہت غور سے ان کی بات سن رہے تھے جبکہ اسد کا تو جیسے جسم کا ہر عضو کان بن گیا تھا...
" وہ دراصل اپنے بیٹے عاکف کے لئے عفیرہ کو مانگنے آئی تھیں... عاکف نے اسے شادی میں دیکھا تو وہ اسے پسند آگئی تھی.." نازیہ بیگم نے بات پوری کرکے ان سب کو دیکھا جو انہیں ہی دیکھ رہے تھے جبکہ اسد بالکل ساکت سا بے تاثر چہرہ لئے ٹیبل کی طرف دیکھ رہا تھا.. 
" ایکسکیوز می... مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے.." وہ خود کو سنبھالتا دھیرے سے اٹھا اور بنا کسی کی طرف دیکھے لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا... تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی... 
احد نے معنی خیز انداز میں فہد کو دیکھا اور دھیرے سے مسکرا دیا... جبکہ نازیہ بیگم نے پریشانی سے جمشید صاحب کی طرف دیکھا جو ہاتھ کے اشارے سے انہیں سنبھلنے کا کہہ رہے تھے...
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
" ڈیڈ عاکف آپ کی بھتیجی کے لئے بیسٹ نہیں ہے.." کھانا کھانے کے بعد وہ لائیبریری میں بیٹھے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے کہ ان کے موبائل کی اسکرین آن ہوئی.. دیکھا تو اسد کا مسیج تھا..
" میری بھتیجی کے لئے کون بیسٹ ہے کون نہیں یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا.." انہوں نے تیزی سے تمسخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ مسیج لکھ کر سینڈ کیا...
" جی بالکل.." منہ بناتی ایموجی کے ساتھ اس کا مسیج موصول ہوا...
" تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے اپنی بات کو ثابت کرنے کا.." انہوں نے مسکرا کر اپنے ضدی بیٹے کو چیلینج کیا تو تین چار فوٹوز اسی وقت ان کے واٹس ایپ پر آۓ... 
(واہ برخوردار تو پوری تیاری کے ساتھ آۓ ہیں..) انہوں نے وہ تصویریں دیکھتے ہوئے سوچا... ان تصویروں میں عاکف کچھ لڑکیوں کے ساتھ بالکل نازیبا انداز میں تھا... 
" یہ تصویریں تو کافی نہیں ہیں اس رشتے سے انکار کرنے کے لئے... ویسے بھی آج کل کے لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے.." ان کا مسیج پڑھ کے شاید وہ حیران ہوا تھا اسی لیے کافی دیر بعد جواب آیا...
" اچھی بات ہے.." غصے والی ایموجی کے ساتھ اس نے اپنا ظاہر کیا اور آف لائن ہو گیا.. اس کا مسیج پڑھ کر جوں ہی انہوں نے فون رکھا اسی وقت وہ ناک کرتا اندر داخل ہوا..
" ڈیڈ آپ میری بات سمجھ کیوں نہیں رہے.." وہ ان کی طرف بڑھتا ہوا بولا.. 
" سمجھ گیا ہوں تمہاری بات.. میں بھائی صاحب سے بات کروں گا.." انہوں نے ورق پلٹتے ہوئے مصروف سے انداز میں کہا..
" کیا بات کریں گے آپ.." 
" کیا بدتمیزی ہے اسد... میں اپنے طریقے سے بات کروں گا.."
" نہیں آپ مجھے بتائیں کیا بات کریں گے بڑے پاپا سے.."اس نے ضدی لہجے میں کہا تو وہ اسے گھور کر رہ گئے..
" میں ان سے کہہ دوں گا کہ لڑکا بس تھوڑا آزاد خیال ہے باقی اس میں کوئی برائی نہیں ہے.." ان کا انداز نارمل تھا..
" " بس تھوڑا آزاد خیال ہے.. ڈیڈ آپ اتنے براڈ مائینڈڈ کب سے ہو گئے.." آج جمشید صاحب نے اسے  حیرانی کے سمندر میں ڈوبنے پر مجبور کر دیا تھا..
" تمہارے معاملے میں بھی اتنا ہی براڈ مائینڈڈ ہوں.. بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوں.." انہوں نے جتاتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا..
 " اگر میں عاکف کی جگہ ہوتا تو آپ مجھے بھی اسی طرح گرین سگنل دے دیتے.." اس نے بات کو خود کی طرف موڑا..
" اگر تم ہوتے تو ہاں ضرور... لیکن بیٹا تم ہو نہیں.." انہوں نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی..
" ٹھیک ہے پھر ہٹا دیں اس عاکف کو.. اور میرے بارے میں سوچیں.." اس نے بڑی دلیری سے خود کو پیش کیا تو جمشید صاحب نے داد دیتی نظروں سے اسے دیکھا..
" یہ ناممکن ہے.." انداز ٹالنے والا تھا..
" کیوں ناممکن ہے ڈیڈ.." وہ اپنی بات پر اڑا ہوا تھا..
"کیونکہ میں نے خود عاکف کے بارے میں ان سے بات کی ہے.. اور تمہیں پتا ہے میں اپنی بات سے کبھی نہیں ہٹتا.." انہوں نے اٹل لہجے میں کہا.. اسی وقت نازیہ بیگم اندر داخل ہوئیں..
" کیا ہوا.. کوئی مسئلہ ہے کیا.." انہوں نے ان دونوں کے چہرے کی سنجیدگی سے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی..
"سب سے بڑا مسئلہ یہ سامنے کھڑا ہے.." جمشید صاحب نے غصے سے اسد کو گھورا تو انہوں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا..
" ہوا کیا ہے.." 
" ہوا یہ ہے کہ یہ موصوف عفیرہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں.." اسد کے کچھ بولنے سے پہلے ہی جمشید صاحب بول اٹھے..
" تو اس میں اتنی پریشانی کی کیا بات ہے.." نازیہ بیگم کے آرام سے کہنے پر جمشید صاحب نے حیرانی سے انہیں دیکھا جبکہ اسد مسکرا دیا..
" پریشانی کی بات نہیں ہے.." انہیں اپنی بیگم کی بات پر حیرانی ہوئی..
" بالکل نہیں.." جمشید صاحب کے لہجے پر وہ مسکرا دیں..
" آپ بھی تو یہی چاہتے تھے کہ اسد کی شادی عفیرہ سے ہو.." نازیہ بیگم کی بات پر اسد نے خوشگوار حیرت سے جمشید صاحب کو دیکھا..
" اب تو کوئی پرابلم نہیں ہے ڈیڈ.. آپ بھی راضی میں بھی راضی.."
" لیکن عفیرہ نے عاکف کے لئے ہاں کہہ دی ہے.." انہوں نے جیسے ان دونوں ماں بیٹے کے سر پر بم پھوڑا..
" یہ کیا بات ہوئی.." اس نے خراب سا منہ بنایا..
" یہ وہی بات ہوئی برخوردار جو تمہیں ہضم نہیں ہو رہی.." 
" اچھا تم جاؤ آرام کرو میں کچھ کرتی ہوں.." نازیہ بیگم نے اس سے کہا تو وہ نا چاہتے ہوئے اٹھا اور دروازے تک جاکر پھر واپس آگیا..
" دیکھئے ڈیڈ میں کہہ رہا ہوں اگر آپ لوگوں نے کچھ نہیں کیا تو میں کچھ نہ کچھ ضرور کر لوں گا.." اس نے ضدی لہجے میں ان دونوں سے کہا اور دھپ دھپ کرتا کمرے سے باہر چلا گیا..
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
امی ابو کے پوچھنے پر اس نے شادی کے لیے ہاں کہہ دی تھی.. شادی کی تاریخ ایک مہینے بعد کی طے کی گئی تھی.. اس لئے گھر میں افرا تفری مچی ہوئی تھی.. بھابھیاں بازار کے چکر لگانے میں بزی تھیں.. اس سے بھی شاپنگ میں حصہ لینے کو کہا تو اس نے سب ان پر چھوڑ کر انکار کر دیا..
 اس کا دل نہیں کر رہا تھا کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینے کا.. عجیب سا حال تھا اس کا.. عجیب خیالات اس کے دل میں پیدا ہو رہے تھے.. وہ اپنی اس بدحالی کو کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی.. 
سب خوش تھے وہ بھی ان کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہ رہی تھی.. لیکن وہ ہار گئی تھی اپنے دل ہاتھوں... اپنی سوچوں سے تھک کر اس نے خود کو اللہ کی رضا پر چھوڑ دیا.. کیونکہ وہی ہے جو دلوں کا حال جانتا ہے.. وہی ہے جو ہر چیز پر قادر مطلق ہے..
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
بالکنی میں کھڑا وہ آگے پیش ہونے والے حالات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کر رہا تھا.. جوش میں آکر اس نے ڈیڈ سے بات تو کر لی تھی لیکن ایک خدشہ تھا جو اس کے دل بیٹھ گیا تھا..
 وہ عفیرہ کے بارے میں اپنے احساسات کو کیا نام دے وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا.. کیا تھا کیا نہیں وہ ان سب سے بالکل انجان تھا.. کب عفیرہ نے اس کے دل پر قبضہ کیا وہ جان ہی نہ پایا.. اس کے دل نے اچانک ہی بغاوت شروع کر دی تھی بغیر کسی وارننگ کے.. 
ڈیڈ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں وہ اچھی طرح جانتا تھا.. وہ اسے عفیرہ کے قابل نہیں سمجھتے.. پھر بھی اس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر جمشید صاحب سے بغاوت کی... آگے کیا ہوگا وہ بخوبی جانتا تھا.. اس لئے خود کو ہر سیچویشن کے لئے تیار کر رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی لڑائی میں اکیلا ہے..
 تھک کر وہ کمرے میں آیا تھوڑی دیر ادھر ادھر چکرانے کے بعد بستر پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا..
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
"اے لڑکی مہمان آۓ بیٹھے ہیں اور تم یہاں مدھوبالا بنی بیٹھی ہو.." وہ چھت پر بیٹھی اپنی سوچوں میں گم تھی کہ پیچھے سے آتی احد کی آواز نے اسے چونکا دیا..
" آپ.. آپ کب آۓ.." اس نے حیرت سے سیڑھی کے پاس کھڑے احد کو دیکھا جو اس کی حیرانی پر مسکرا رہا تھا..
" پچیس سال ہو گئے مجھے آۓ بھی.." اس نے شرارت سے جواب تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی..
" میرا مطلب دہلی کب آۓ.."
" کب کا آیا ہوا ہوں بی بی لیکن تم اپنی شادی کی خوشی میں اتنا گم ہو کہ کسی کے آنے جانے کی کوئی خبر ہی نہیں.." 
" ایسی بات نہیں ہے بھائی.." اس نے جلدی سے کہہ کر زبان دانتوں تلے دبا لی..
" سوری.." احد قہقہہ لگا کر ہنس دیا..
" اب کوئی فائدہ نہیں.. بہن بنانا پڑے گا مجبوری ہے.." اس نے ٹھنڈی آہیں بھریں تو وہ ہنس دی..
" سب لوگ آۓ ہیں بس اسد نہیں آیا.."
" کیوں.. وہ.. وہ کیوں نہیں آۓ.." اس کے دھیمے انداز میں کہنے پر اس نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا اور مسکرا دیا..
" اس کا کہنا ہے کہ اس کا آنا اتنا ضروری نہیں ہے.. تمہاری شادی کے چکر میں اپنی اہم میٹنگز تو نہیں چھوڑ سکتا.."
" ہاں یہ بھی صحیح کہا.. میں کون سی بہت اہم ہوں ان کے لئے.." اس نے افسردگی سے کہا اور چہرہ دوسری طرف موڑ دیا..
" اس کا مطلب تمہیں ہمارے آنے کی خوشی نہیں ہے.. اس سڑیل کی ہی اہمیت ہے.." اس نے گھور کر اسے دیکھا..
" آپ لوگوں کی تو بہت اہمیت ہے میری زندگی میں.." اس نے مسکرا کر کہا تو وہ بھی مسکرا دیا.. 
"چلو نیچے چلتے ہیں ورنہ سب میری بینڈ بجا دیں گے.." احد کے کہنے پر وہ سر ہلاتی اس کے ساتھ سیڑھیاں اترنے لگی..
" نیچے ایک جم غفیر لگا ہوا تھا.. اتنا شور کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی..
" دلہن صاحبہ تشریف فرما ہیں.." احد کے شاہانہ انداز میں کہنے پر سب ان دونوں کی طرف متوجہ ہوگئے..
" اسلام وعلیکم.." وہ مسکرا کر سلام کرتی نازیہ بیگم اور فردوس بیگم کے بیچ جاکر بیٹھ گئی..
" کیا حال ہے میری بیٹی کا.." 
" الحمدللہ بہت اچھا.. آپ سب سنائیں صفر کیسا رہا.." جمشید صاحب کے پیار سے پوچھنے پر اس نے مسکرا کر کہا..
" صفر کچھ خاص نہیں تھا صرف ہوا میں چار پانچ گھنٹے تھے بس.." دائم کے معصومیت سے کہنے پر سب قہقہہ لگا کر ہنس دئیے.. 
" دھوکے باز لڑکی تم ہمیں دہلی گھمانے والی تھی اور شادی کا کارڈ تھما دیا.. اچھی ڈرامے بازی ہے.." فہد کے پر اس نے شرماکر نظریں جھکالیں..
" اب بھی گھوم سکتے ہو تم کیوں عفیرہ.." ابرار بھائی نے اسے دیکھ کر کہا..
" نہیں بھائی ہم ہونے والی دلہن کے ساتھ نہیں گھومتے.. ایسے ہی بدنام ہیں اور بھی زیادہ بدنام ہو جائیں گے.." احد کے منہ بناکر کہنے پر سب قہقہہ لگا کر ہنس دئیے.. 
سب اسی طرح گپے مارنے میں مصروف تھے.. وہ چاروں اپنی عادت کے مطابق سب کو اپنی باتوں سے ہنسا رہے تھے.. انہیں دیکھ کر لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ سب پہلی بار اس کے گھر آۓ ہیں.. 
جمشید صاحب اور جنید صاحب کے چہرے سے ان کی خوشی ظاہر ہو رہی تھی.. گھر کا ہر فرد یہاں پر موجود تھا سوائے اس ایک شخص کے.. اس ایک شخص کے بنا سب کچھ بالکل خالی لگ رہا تھا.. 
" تم میرے حواسوں پر اتنا کیوں چھا گئے ہو گئے ہو اسد..! بنا کسی وعدے کے..  بنا کسی لفظی تقاضوں کے.. بنا کسی بندھن کے.."
 افسردگی اس کے چہرے سے ظاہر تھی.. اپنی زہنی تھکن سے چھٹکارا پانے کے لئے وہ دھیرے سے اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی یہ دیکھے بنا کہ دو آنکھیں اس کے چہرے پر آنے والے ہر احساسات کو پڑھ رہی ہیں...

   1
0 Comments